اقوام متحدہ نے پیر کے روز افغانستان کے دارالحکومت کابل میں متعدد افغان خواتین کی گرفتاریوں پر ’تشویش‘ کا اظہار کیا ہے، جن پر طالبان حکومت کے سخت لباس کے ضابطے کی خلاف ورزی کا الزام تھا۔ افغان حکام نے ایسی کسی گرفتاری کی تردید کی ہے۔
طالبان کے 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اسلامی قانون کی سخت تشریح نافذ کی ہے، اور تمام خواتین کے لیے سر سے پاؤں تک مکمل پردہ لازم قرار دیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے معاون مشن (UNAMA) نے کہا کہ اسے ’16 تا 19 جولائی کابل میں متعدد خواتین اور لڑکیوں کی گرفتاری پر تشویش میں ہے، جن پر عبوری حکام کی حجاب کی ہدایات پر عمل نہ کرنے کا الزام ہے۔‘
معاون مشن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’یہ واقعات خواتین اور لڑکیوں کو مزید تنہائی کا شکار بناتے ہیں، خوف کا ماحول پیدا کرتے ہیں اور عوامی اعتماد کو مجروح کرتے ہیں،‘ اور یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اس معاملے پر حکام سے رابطہ کیا ہے۔
UNAMA is concerned by the arrest of numerous women & girls in Kabul between 16-19 July due to their alleged non-compliance with the de facto authorities’ hijab instructions.
— UNAMA News (@UNAMAnews) July 21, 2025
UNAMA has engaged with #Afghanistan's de facto authorities to seek further information.
ایک عینی شاہد نے اے ایف پی کو گذشتہ ہفتے بتایا کہ جب وہ وسطی کابل میں گاڑی چلا رہا تھا، تو اس نے وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ایک یونٹ کو دیکھا جو ’دو خواتین کو گاڑی میں بیٹھنے کو کہہ رہا تھا۔‘
عینی شاہد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خواتین نے عبایا پہنا ہوا تھا اور میک اپ کیا ہوا تھا۔ وہ گاڑی میں بیٹھنے سے انکاری تھیں، لیکن ایک مسلح اہلکار نے انہیں زبردستی گاڑی میں سوار کر لیا۔
طالبان حکام نے گرفتاریوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے صرف ’حجاب کے ضابطے سے متعلق آگاہی مہم‘ چلائی ہے۔
وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان سیف الاسلام خیبر نے بتایا، ’کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا نہ جیل لے جایا گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ چار برسوں میں، طالبان حکام نے خواتین کو بتدریج تنہا کر دیا ہے، انہیں جامعات، عوامی پارکوں، جم خانوں اور بیوٹی سیلونز میں جانے سے روک دیا گیا ہے، جسے اقوام متحدہ نے ’جنس پر مبنی امتیاز‘ (gender apartheid) قرار دیا ہے۔
طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ ان کی اسلامی قانون کی تشریح ’ہر فرد کے حقوق کی ضمانت‘ دیتی ہے اور امتیاز کے الزامات ’بےبنیاد‘ ہیں۔
پیر کے روز اقوامِ متحدہ کے معاون مشن نے طالبان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ’ایسی تمام پالیسیوں اور اقدامات کو ختم کریں جو خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو محدود کرتے ہیں۔‘

<p class="rteright">24 جون 2025 کو افغان خواتین قندھار صوبے میں (اے ایف پی)</p>
from Independent Urdu https://ift.tt/76PHrZb
0 Comments