پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) نے جمعے کو فوجداری قوانین میں ترامیم کا بل کثرت رائے سے منظور کیا، جس میں خاتون کو سرعام برہنہ کرنے پر سزائے موت ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس فیصلے پر جہاں کچھ سیاسی رہنماؤں نے تنقید کی ہے، وہیں قانونی ماہرین اور سماجی کارکن کہتے ہیں کہ سزائے موت ہونی ہی نہیں چاہیے۔
یہ بل وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کی جانب سے منظوری کے لیے پیش کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ یہ بل تقریباً دو ماہ قبل سینیٹ میں لایا گیا تھا، جسے بعد ازاں متعلقہ کمیٹی کو بھجوایا گیا تھا اور پارلیمانی قواعد و ضوابط مکمل ہونے یعنی کمیٹی میں بحث کے بعد اسے ایوان میں واپس لایا گیا اور بعد ازاں منظور کیا گیا۔
بل، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، کے متن میں ’خاتون پر مجرمانہ حملہ کرنے یا سر عام برہنہ کرنے پر سزائے موت ختم‘ کرنے کا کہا گیا ہے۔ ایسا کرنے پر ملزم کو وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا جا سکے گا۔
بل میں کہا گیا کہ ابتدائی طور پر وارنٹ جاری کیا جائے گا جبکہ ’جرم ناقابلِ ضمانت اور ناقابلِ مصالحت‘ ہوگا۔ خاتون پر مجرمانہ حملہ کرنے یا اسے سرعام برہنہ کرنے پر مجرم کو عمر قید، اس کی جائیداد کی ضبطگی اور جرمانہ ہوگا۔
دوسری جانب ہائی جیک کرنے والے کو پناہ دینے والے فرد کے لیے سزائے موت ختم کرنے کی بھی تجویز دی گئی تھی، جسے منظور کر لیا گیا ہے۔ متن کے مطابق: ’ہائی جیک کرنے والے کو پناہ دینے والے کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا سکے گا، جبکہ ابتدائی طور پر اس کا وارنٹ جاری کیا جائے گا۔‘
بل کے مطابق یہ جرم بھی ناقابلِ ضمانت اور نا قابلِ مصالحت ہوگا اور ہائی جیک کرنے والے کو پناہ دینے والے کو عمر قید اور جرمانہ ہوگا۔
واضح رہے کہ یہ دونوں ترامیم صدر مملکت آصف زرداری کے قوانین پر دستخط کرنے کے بعد سے نافذالعمل ہوں گی۔
’خاتون کے کپڑے اتارنے پر سزائے موت برقرار رہنی چاہیے تھی‘
منظوری سے قبل اجلاس میں شریک پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ خاتون کے کپڑے اتارنے پر سزائے موت تھی، اس سزائے موت کو برقرار رہنا چاہیے تھا۔
بلوچستان عوامی پارٹی کی ثمینہ ممتاز زہری نے بھی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’قانون کو ہم مزید نرم کر رہے ہیں، ہم عورت کو کمزور بنا رہے ہیں اور عورت کے کپڑے اتارنے میں نرمی لائی جا رہی ہے۔ آپ کو تو اور سختی کرنی چاہیے، یہ اسلامی ریاست ہے، لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہم اپنی سزا کم کر رہے ہیں۔‘
تاہم وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’یہ کیسے سوچ لیا گیا کہ سزا کی سنگینی جرم کو روکتی ہے؟ ہمارے پاس 100 جرائم میں سزائے موت ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وفاقی وزیر نے یورپ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’یورپ میں سزائے موت نہیں لیکن وہاں پھر بھی کرائم کم ہو رہا ہے، وہاں جیلیں خالی ہیں، جنہیں میوزیم میں بدلا جا رہا ہے۔ سزائے موت دینے سے جرائم کم نہیں ہوں گے۔‘
انہوں نے خواتین کو برہنہ کرنے کے مبینہ جھوٹے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پانی کے جھگڑوں پر جھوٹے مقدمہ بنا لیتے ہیں کہ خاتون کے کپڑے اتارتے ہیں تاکہ اگلے کو سزا موت ہو جائے۔‘
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’فوجی صدر ضیا الحق کے دور میں وڈیروں نے ایک خاتون کے کپڑے پھاڑے تو اس کیس میں سزائے موت دی گئی، اس سے قبل اس جرم پر سات سال سزا ہوتی تھی۔ جب یہ قانون بنا تو اس کیس کا اندراج بڑھ گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عمر قید بہت بڑی سزا ہے، شریعت میں شامل چار جرائم کے علاوہ کسی جرم پر سزائے موت نہیں ہونی چاہیے۔‘
اس ضمن میں خاتون ایکٹیوسٹ اور وکیل ایمان مزاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ان کا اصولی موقف ہے کہ ’سزائے موت کسی بھی جرم کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔‘
ایمان کے مطابق: ’عجیب بات یہ ہے کہ اس قانون کو ایسے پیش کیا گیا ہے جیسے یہ جی ایس پی پلس کی کوئی شرط ہے، لیکن اس بات کی کوئی منطق نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پینل کورٹ میں اور بھی کئی جرائم ہیں جن میں سزائے موت دی جاتی ہے، تو صرف ان دو سیکشنز کی ہی کیوں ترامیم کی جا رہی ہے؟ نہ کہ وہ سیکشنز، جن کے لیے سزائے موت ہے۔ یہ منطقی طور پر متضاد ہے۔‘
سماجی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے بھی سزائے موت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سخت سزائیں جرائم کی روک تھام کے لیے کافی نہیں ہوتیں۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’آج بھی ایسے کیسز ہیں جہاں خواتین کو برہنہ کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر سزا دیا جانا اہم ہے اور لوگوں کو نظر آئے کہ انصاف ہوا ہے۔ سخت سزا جرائم کی روک تھام کا بہتر ذریعہ نہیں بنتی بلکہ ان قوانین پر مؤثر عملدرآمد ہی بہتر رکاوٹ بنتی ہے۔‘
فرزانہ باری کے مطابق وہ ’کسی صورت بھی سزائے موت کی حامی نہیں ہیں۔ ایسے سنگین نوعیت کے کیسز میں سخت سزائیں دینی چاہییں، جیسے عمر قید جو موت تک ہو، یہ سزائے موت دینے سے بھی زیادہ سخت سزا ہے۔‘
یاد رہے کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق جان بوجھ کر کیا گیا قتل، ریپ، گینگ ریپ، اغوا برائے تاوان، دہشت گرد حملے میں انسانی جان ضائع ہونے، دھوکہ دہی کے ساتھ قتل یا زہر دینے، بغاوت غیرت کے نام پر قتل، جنسی زیادتی کے نتیجہ میں موت یا ذہنی معذوری اور توہینِ رسالت سمیت دیگر جرائم پر سزائے موت دی جاتی ہے۔

<p class="rteright">سینیٹ کی عمارت کا اندرونی منظر (تصویر: بشکریہ سینیٹ آف پاکستان آفیشل فیس بک پیج)</p>
from Independent Urdu https://ift.tt/N2HSOB8
0 Comments